بریانی کی ان کہی کہانی

بریانی کی ان کہی کہانی

بریانی کی ان کہی کہانی

اگر آپ زرا سی توجہ اور دھیان دیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہر پکوان کی مشہوری کے پیچھے لوگوں کو سنانے کے لیے ایک کہانی ہوتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان چونکہ قصوں، کہانیوں کے دیس ہیں تو یہاں کے ہر کھانے کی شہرت کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے جو وقت اور جغرافیہ کی حدود سے باہر تک پھیلی ہوتی ہے جبکہ بھارت اور پاکستان سمیت دنیا میں بہت کم پکوان اتنے مشہورومقبول ہیں جو بریانی سے زیادہ لمبی اور دلچسپ تاریخ رکھتے ہوں۔
اس شاندار اور ہردل عزیز پکوان کی ابتداء فارس، جسے جدید دور میں ایران کے نام سے جانا جاتا ہے، سے معلوم کی جا سکتی ہے، "بریانی" کا لفظ فارسی لفظ "بریان" سے نکلا ہے، جس کا ترجمہ "فرائیڈ رائس" کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ برصغیر کے مقامی کھانوں اور پکوانوں پر اثر انداز ہونے کے لیے یہ شاندار ڈش یہاں کیسے پہنچی؟
بریانی کا اصل وطن ڈھونڈنے کی کوشش میں ایک روایت میں ترک منگول فاتح تیمور کا ذکر ملتا ہے، جو 1398 میں ہندوستان کی سرحدوں پر پہنچا تواپنے ساتھ بریانی کا بیش قیمت تحفہ بھی لایا۔ اسے بنانے کا اس زمانے میں طریقہ یہ تھا کہ چاول، مصالحہ جات اور جو بھی گوشت میسر تھا اسے ایک مٹی کے برتن میں بھر کر ایک گرم گڑھے میں دفن کردیا جاتا اور ایک مخصوص وقت کے بعد جب باہر نکالا گیا تو گرما گرم مزیدار بریانی تیار تھی جسے تیمور کے فوجیوں کو جنگی مہم کے دوران کھانے کے طور پر پہنچایا گیا۔
بریانی کی اصلیت یا اوریجنلٹی کے بارے میں ایک روایت مغل بادشاہ شاہ جہان اور ان کی اہلیہ ملکہ ممتاز محل (1593-1631) سے منسوب ملتی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ شاہ جہان نے ایک بار فوجی بیرکوں کا دورہ کیا اور دیکھا کہ ان کے فوجیوں میں غذائیت کی کمی ہے۔
 
شاہ جہاں کی اہلیہ نے اپنے باورچیوں کو حکم دیا کہ متوازن غذائی اجزاء کے ساتھ ایک منفرد ڈش تیار کی جائے تاکہ فوجیوں کو پیٹ بھر کر کھانا ملے اور ان میں موجود غذائیت کی کمی کو دور کیا جاسکے۔۔ اس کے نتیجے میں گوشت، خوشبودار مسالہ جات اور تلے ہوئے چاولوں کے ساتھ 'ایک مکمل کھانے' کے طور پر بریانی تیارکی گئی، جسے ایک ہی ڈش میں بانٹا جا سکتا تھا۔ اگرچہ اس ڈش نے فارسی اثرات کو برقرار رکھا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ "بریانی" پر برصغیر کے کیا اثرات ہیں اور یہ مقبول ڈش فارسی کھانوں سے کس حد تک تعلق رکھتی ہے۔
دوسری جانب تمل ادب میں قریب دو ہزار سال پہلے سے "اون سورو" کا ذکر ملتا ہے تمل زبان میں اون سے مراد گوشت ہے اور سورو سے مراد تلے ہوئے چاول ہیں جو مل کر بریانی جیسی مزیدار ڈش بناتے ہیں۔
چاول، گھی، گوشت، ہلدی، دھنیا، لونگ، زیرہ، لائچی، کالی مرچ اور دیگر مسالہ جات کے ساتھ ذائقوں کا مجموعہ، جسے جنگ کے بعد شاہی فوجیوں کے لیے بادشاہ کی طرف سے جشن کے طور پر پیش کیا جانے والا کھانا سمجھا جاتا تھا آج دنیا بھر میں بریانی کے نام سے مشہور ہے۔ یہ بھی امکان ہے کہ 'اون سورو' یعنی گوشت اور تلے ہوئے چاولوں کا پکوان جنوبی ہندوستان کے باورچیوں نے شاہی فوج میں شامل لوگوں کے لیے تیارکیا تھا جنہوں نے بعد میں اس ڈش کو "بریانی" کا نام دیا۔
بریانی کی مقبولیت لکھنؤ کے نوابوں سے لے کر حیدرآباد کے ناظموں تک صدیوں سے اٹل رہی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقیت ہے کہ بریانی کی اصلیت ایک معمہ بنی ہوئی ہے، پاکستانیوں نے اس زبردست ڈش کی ہر قسم کو مکمل اوراپنے انداز میں تیار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بمبئی بریانی، دہلی بریانی، سندھی بریانی، چکن بریانی، بیف بریانی، مٹن بریانی، جھینگا بریانی، آلو بریانی، توابریانی، انگارا بریانی سے خوشبودار باسمتی چاولوں کی روایتی بریانی تک، ہماری بریانی ممتاز محل یا تمل بریانی سے مختلف نظر آتی ہے۔ پھر بھی چونکہ اس کے بنیادی مصالحے ایک جیسے ہیں تو یہ اپنی مکمل حالت میں بریانی ہی رہتی ہے۔
بریانی نے اپنی مقبولیت کے سفر میں مختلف ممالک، تہذیبوں اور ٹائم فریمز کو عبور کیا ہے اور پاکستانی کھانوں میں شامل ایک اہم پکوان سمجھی جاتی ہے۔
اس لیے ہمارا ماننا ہے کہ اگلی بار جب آپ بریانی کی پلیٹ لے کر بیٹھیں تو اس کی تاریخ اور اپنی آنے والی نسلوں پر اس کے اثرات پر غور کریں، آپ کو کئی دلچسپ حقائق ملیں گے۔

not null

مترجم : kamran

 

اپنی رائے دیں

 

رائے (1)

اپنے ان باکس میں ترکیبیں، تجاویز اور خصوصی پیشکشیں حاصل کریں